اسرائیل میں پہلی بار ملک گیر ہڑتال

  • Home
  • اسرائیل میں پہلی بار ملک گیر ہڑتال

اسرائیل میں پہلی بار ملک گیر ہڑتال

محمد ہارون عثمان(ستمبر ۴, بیورو رپورٹ)

گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے شدت پسندوں نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے کے بعد اسرائیل میں پہلی بار ملک گیر ہڑتال دیکھنے میں آئی ہے، اسرائیل کے کئی شہروں میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ یہ وسیع مظاہرے جنوبی غزہ سے چھ مغویوں کی لاشوں کی حالیہ برآمدگی کے ساتھ شروع ہوئے۔

مظاہرین وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر سنگین الزامات لگا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو اپنے سیاسی وجود کو بچانے کے لیے جنگ بندی (اسرائیل اور حماس کے درمیان) اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو روک رہے ہیں۔

یرغمالیوں کے اہل خانہ پہلے ہی حماس کے ساتھ جنگ ​​کے حوالے سے نیتن یاہو کی حکمت عملی کو مسترد کر چکے ہیں۔ لیکن حال ہی میں جب یرغمالیوں کی لاشیں برآمد ہوئیں تو لواحقین میں غم و غصہ پھوٹ پڑا۔

ان افراد کی شناخت کارمل گیٹ، ایڈن یروشلمی، ہرش گولڈ برگ پولن، الیگزینڈر لوبانوف، الموگ سارسو اور ماسٹر سارجنٹ اوری ڈیینو کے طور پر کی گئی تھی جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہیں جولائی میں جنگ بندی کے پہلے دور کے دوران رہا کیا جانا تھا۔ .

جن پلے کارڈز کے ساتھ لوگ نیتن یاہو کے خلاف نعرے لگا رہے تھے، ان پر لکھا تھا کہ ’آپ حکومت کے سربراہ ہیں، اس لیے الزام آپ پر ہی پڑے گا‘ گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد 11 ماہ گزر چکے ہیں۔ لیکن حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں اب بھی 97 یرغمال ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے 33 کی موت ہو چکی ہے۔

مظاہرین حماس کے ساتھ جنگ ​​بندی کا معاہدہ چاہتے ہیں تاکہ باقی 97 یرغمالیوں کو رہا کیا جا سکے شیرون لفشٹز کے والد اوڈد بھی ان یرغمالیوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے بی بی سی ریڈیو 4 کے ٹوڈے پروگرام میں بتایا کہ “ہمیں ہمیشہ خوف تھا کہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔” وہ لوگ صرف حماس کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے مارے گئے۔

انہوں نے کہا کہ مظاہرین کا پیغام واضح ہے۔ وہ اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے جب تک کہ ہمارے لوگ گھر نہیں آتے اور یہ بے ہودہ جنگ ختم نہیں ہو جاتی۔ اس سے پہلے وہ حماس کی قید میں 11 ماہ تک اذیت، بدسلوکی اور فاقہ کشی کا شکار رہے۔

فورم نے ایک بیان میں کہا کہ درحقیقت معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے ان یرغمالیوں اور ان جیسے دیگر یرغمالیوں کو موت کا سامنا کرنا پڑا ہے جو کہ اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل میں سب سے بڑی عام ہڑتال ہے۔ اس ہڑتال کو منظم کرنے میں اسرائیل کی مرکزی ٹریڈ یونین ہسٹادرٹ نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔

یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے فورم نے عام لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر مظاہروں میں شرکت کریں اور پورے ملک کو تعطل سے دوچار کریں۔ اس کے بعد کئی عوامی خدمات میں خلل پڑا اور بڑی سڑکوں پر نقل و حرکت میں رکاوٹیں آئیں۔

اسرائیل میں اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم یائر لاپڈ مظاہرین کی حمایت میں سامنے آگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام اسرائیلی، جن کے دل یرغمالیوں کی ہلاکت کی خبر سے ٹوٹے ہیں، انہیں مظاہرین کی حمایت کے لیے آگے آنا چاہیے۔

  • Share

admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *