بھارت کے مسلمان عدلیہ پر بھروسہ کریں

  • Home
  • بھارت کے مسلمان عدلیہ پر بھروسہ کریں
Mufti Mohammed Nadeem Uddin

بھارت کے مسلمان عدلیہ پر بھروسہ کریں

بھارت کے مسلمان عدلیہ پر بھروسہ کریں فرقہ پرست قوتیں چاہتی ہیں ملک کے حالات بگڑے اور آنے والے لوک سبھا انتخابات میں اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
گیانواپی مسجد وارانسی، اتر پردیش، بھارت میں واقع ہے۔ یہ ایک متنازعہ مقام ہے، ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ شیو کے لیے وقف ایک ہندو مندر کے کھنڈرات پر بنایا گیا تھا۔ یہ مسجد 1669ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے تعمیر کروائی تھی۔ پر یہ مسجد اورنگزیب کے دورے حکومت سے پہلے قائم ہے۔ اب مسلم سماج کو صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے قانونی طور پر لڑائی لڑنی چاہیے نا کہ احتجاج اور مظاہرے سے یہ بےحد ضروری ہے کہ پوری حکمت کے ساتھ میں مسئلے سے نپٹا جائے۔

1991 میں، ہندو خواتین کے ایک گروپ نے وارانسی کی ضلعی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا، جس میں گیانواپی مسجد احاطے کے اندر ایک مزار میں عبادت کرنے کی اجازت مانگی گئی۔ عدالت نے اس کمپلیکس کے سروے کا حکم دیا، جو 2020 میں کرایا گیا تھا۔ سروے میں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ مسجد کی تعمیر سے پہلے اس جگہ پر کوئی ہندو مندر موجود تھا۔ اب یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے اور مسلمانوں کی جانب سے بہت ہی بہترین انداز میں اس کیس کو لڑا جا رہا ہے۔

سروے کے نتائج نے وارانسی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دوبارہ کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ مئی 2022 میں، وارانسی کی ایک عدالت نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کو کمپلیکس کا مزید سروے کرنے کا حکم دیا۔ اے ایس آئی کا سروے جاری ہے۔

گیانواپی مسجد کی موجودہ صورتحال غیر مستحکم ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی طرف سے احتجاج اور مظاہرے ہوئے ہیں اور تشدد کا خطرہ ہے۔ ASI سروے کے نتائج کا سائٹ کے مستقبل پر اہم اثر پڑنے کا امکان ہے۔

گیانواپی مسجد کی تاریخ کے چند اہم واقعات یہ ہیں:

  • 1991: ہندو خواتین کے ایک گروپ نے مسجد کمپلیکس کے اندر ایک مزار پر عبادت کرنے کی اجازت کے لیے مقدمہ دائر کیا۔
  • 2020: کمپلیکس کا سروے کیا گیا۔
  • 2022: اے ایس آئی نے کمپلیکس کے مزید سروے کا حکم دیا۔ گیانواپی مسجد ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے۔ تنازعہ کو سمجھنے کے لیے سائٹ کی تاریخ اور موجودہ صورتحال سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔
    مسلم فریق نے 25 جولائی کو دائر درخواست میں کہا کہ اگر ہندو فریق کے دعوے کے مطابق سروے کیا گیا اور کھدائی ہوئی تو مسجد کا پورا احاطہ تباہ ہو جائے گا جب کہ اس سے ملک میں کشیدگی کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا۔

ضلعی عدالت نے مسجد کے تینوں گنبدوں کے نیچے ’گراؤنڈ پینیٹریٹنگ سروے‘ کا بھی حکم دیا تاکہ اس بات کا پتا لگایا جا سکے کہ جس جگہ مسجد تعمیر کی گئی وہاں پہلے کوئی مندر تھا یا نہیں۔ اس نے چار اگست کو رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے 24 جولائی کی صبح سروے کا آغاز کیا۔ ’انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی‘ نے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والے تین رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سروے 26 جولائی کی شام پانچ بجے تک روک دیا ہے اور مسلم فریق کو الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اسے ’سانس لینے کی مہلت‘ مل جائے گی۔

الہ آباد ہائی کورٹ میں مسلم فریق کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے سینئر وکیل ایس ایف اے نقوی نے کہا کہ محکمۂ آثار قدیمہ اس معاملے میں نہ تو فریق ہے اور نہ ہی اسے نوٹس دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود عدالت نے اسے سروے کا حکم دیا۔

مفتی محمد ندیم الدین
صدر آل انڈیا علماء کونسل

  • Share

admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *