میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں میں ایک عام شہری ہوں جس کی ضروریات بہت مختصر ہے لیکن اہمیت کے حامل ہیں،
- Home
- میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں میں ایک عام شہری ہوں جس کی ضروریات بہت مختصر ہے لیکن اہمیت کے حامل ہیں،
میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں میں ایک عام شہری ہوں جس کی ضروریات بہت مختصر ہے لیکن اہمیت کے حامل ہیں،
میں ایسے ملک میں رہتا ہوں جہاں ہر سال ریاستی سطح پر انتخابات ہوا کرتے ہیں جہاں ہر سیاسی جماعت مقامی مسائل، قومی مسائل یا پھر بین الاقوامی مسائل پر اپنے ووٹرز سے ووٹ مانگتے ہے اور اُن سے وعدہ کرتے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد اُن سے کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے گا پر ذیادہ تر وعدے سیاسی جملے کہلاتے ہیں اور عوام اُن وعدوں کو سیاسی جملے سمجھ کر بھول بھی جاتے ہیں۔ میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں میں ایک عام شہری ہوں جس کی ضروریات بہت مختصر ہے لیکن اہمیت کے حامل ہیں، میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں، میری ضروریات زندگی میں آسانیاں اور سکون چاہتا ہوں، جب کبھی میں يا میرے افراد خاندان بیمار ہو جائیں تو اچھے علاج کی توقع رکھتا ہوں، میں اس ملک اس ریاست کا ایک ٹیکس ادا کرنے والا باعزت اور ذمّہ دار شہری ہوں، میں جس سیاسی جماعت کو اپنا ووٹ دوں اس سیاسی جماعت سے کم سے کم ان چیزوں کی امید تو کر سکتا ہوں، پانچ سال میں ایک بار میں اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو بھرپور استعمال کرنا چاہتا ہوں اور جس سیاسی جماعت کو میں نے ووٹ کیا ہے وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔
اقتدار پر مبنی سیاست کے نعرے نے مجھے عام آدمی پارٹی کی طرف راغب کیا لیکن وہ بھی ایک دھوکا نکلا۔ اس پارٹی کے بانی رکن کے طورپر میری قیاڈت میں ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد افراد نے پارٹی میں شرکت کی اور پارٹی کو پورے بھارت میں ایک مقام حاصل ہوا۔
وائی ایس راج شیکھر ریڈی مشترکہ ریاست اندھراپردیش کادور اقتدار کو میں دونوں ریاستوں کا سنہرا دور قرار دیتا ہوں جہاں اقلیتوں ، معاشی طورپر پسماندہ طبقات کے لئے مفت اعلی تعلیم معاشی طور پر پچھڑے ہوئے مسلم طبقات کو چار فیصد رزیرویشن اروگیہ شری اسکیم کے تحت کارپوریٹ لیول کا مکمل مفت علاج مہیا کیا گیا یہ سلسلہ آج بھی ریاست تلنگانہ میں اج جاری ہے اور غریب عوام اس استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔
غیاث الدین بابو خان اور انکے رفقاء کی تنظیم حیدرأباد زکٰوة اینڈ صدقہ ٹرسٹ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے فیس کی ادائیگی اسکیم کے ذریعے ہزاروں مسلم طلبہ و طالبات اعلی عصری کے مواقع فراہم کئے۔ اس وقت وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے غیاث الدین بابو خان کی اسکیم کو اپناتے ہوئے ریاست کے تمام معاشی پسماندہ مسلمانوں کو مفت اعلی تعلیم کے لئے مواقعے فراہم کئے۔ علحدہ ریاست تلنگانہ کے بعد موجود چیف منسٹر کے سی ار ان تمام اقلیتی فلاحی اسکیمات کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب افسر شاہی انتظامیہ پر کے سی ار اپنا کنٹرول نہیں رکھ پاتے ہیں جس کا خمیازہ ایک عام شہری اٹھتا ہے اور جس کی وجہ سے مناسب اقلیتی بجٹ جاری کرنے باوجود ریاست تلنگانہ کے اقلیتیں بھرپور فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں اور اقلیتی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور ان کا کوئی پُر سانے حال نہیں ہے، وقف بورڈ، مینارٹی فائنانس اور مینارٹی کمشن ہر دفتر کی حالت اُن کی بربادی کی بولتی زبان ہے۔
کل جب سونیا گاندھی ریاستی عوام کے فلاحی گیارنٹی اسکیمات کا اعلان کیا تو امید کی ایک نئی کرن جاگی ہے اور ایک عام شہری ہونے کے ناطے یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اب کُچھ بہتر ہوگا۔
سیاسی جماعتوں کو عام شہری کی ضرورت کو سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنا منشور تیار کرنا چاہیے جس میں تعلیم، صحت، روزگار اہم نکتے ہونے چاہیے، کوئی بھی قوم جب تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ تعلیم کے میدان میں اپنے جھنڈے نا گاڑ دے۔ حصول تعلیم ہی ترقی کی ضمانت ہے اور آج اس مضمون کے ساتھ بڑے ہی فقر سے ایک تصویر شیئر کر کر رہا ہوں جو گورنمینٹ میڈکل کالج وقار اباد کی ہے جہاں بارہ سے زیادہ مسلم طالبات نے فری سیٹ حاصل کی اور جن میں میرے دوست مولانا احسان کی لڑکی بھی شامل ہے.
نوٹ: ایک اہم بات اپنی سیاسی شناخت باقی رکھنا ہے تو اپنے ووٹ کا استعمال ضرور کرنا چاہیے سیاسی جماعتیں آپ کے ووٹ پرسنٹیج سے آپ کی اہمیت کو تول تے ہیں اگر آپ جمہوریت کے تہوار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو آپ کو جمہوریت میں حصے داری حاصل ہوگی اپنے ووٹ کی قیمت کو پہچانئے اور سوچ سمجھکر ووٹ کیجئے۔
احمد ارشد حسین
حیدرآباد
- Share