گیانواپی مسجد پر عدلیہ کا فیصلہ آخری
- Home
- گیانواپی مسجد پر عدلیہ کا فیصلہ آخری
گیانواپی مسجد پر عدلیہ کا فیصلہ آخری
مسلم سماج پورے صبر و تحمل سے کام لیں اور عدلیہ پر اپنا بھروسہ قائم رکھیں بھارت میں عدلیہ آزاد ہیں اور شفاف تحقیقات کی امید کی جا سکتی ہے۔ گیانواپی مسجد مسئلہ ابھی عدلیہ میں زیر التوا ہے اور کسی بھی سماج کو عدالت کے باہر کسی طرح کا کوئی متنازع بیان نہ دیں، اُتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کے بیان پر سیاسی حلقوں میں بحث شروع ہو چکی ہے۔ رام جنم بھومی اور بابری مسجد مسئلے پر بھی عدالت کے باہر مسئلے کو سلجھانے کے لئے کمیٹی بنائی گئی تھی اسی طرز پر گیانواپی مسجد کے مسئلے کو بھی حل کیا جا سکتا ہے اور وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔گیانواپی مسجد کی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
گیانواپی مسجد 17ویں صدی کی مسجد ہے جو وارانسی، اتر پردیش، بھارت میں واقع ہے۔ یہ کاشی وشوناتھ مندر سے متصل ہے، جو ہندوؤں کے اہم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد مغل بادشاہ اورنگزیب نے 1669 میں تعمیر کروائی تھی۔
گیانواپی مسجد کی تعمیر صدیوں سے تنازعات کا شکار رہی ہے۔ ہندو گروپوں نے طویل عرصے سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسجد ایک ہندو مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی تھی، اور انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مسجد کو منہدم کرکے مندر کو دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ مسلم گروپوں نے ان مطالبات کی مزاحمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد ایک جائز عبادت گاہ ہے اور اسے منہدم نہیں کیا جانا چاہیے۔
گیانواپی مسجد کا تنازعہ 1991 میں اس وقت عروج پر پہنچا، جب ہندو پجاریوں کے ایک گروپ نے مسجد کے احاطے کے اندر واقع ایک عبادت گاہ میں عبادت کرنے کی اجازت کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی۔ عدالت نے مسجد کمپلیکس کے سروے کا حکم دیا، اور سروے سے معلوم ہوا کہ مسجد کے اندر کئی ہندو مذہبی نشانات موجود ہیں، جن میں ایک شیولنگ (ہندو دیوتا شیو کی نمائندگی) بھی شامل ہے۔
گیانواپی مسجد کیس ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے اور اس پر آنے والے کئی سالوں تک بحث جاری رہنے کا امکان ہے۔ یہ مقدمہ ہندوستان میں مذہبی آزادی اور سیکولرازم کے درمیان تعلق کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے، اور یہ ملک میں موجود گہرے مذہبی تناؤ کی یاددہانی کرتا ہے۔
ایم ششی دھر ریڈی
سابق وزیر آندھرا پردیش
- Share